باپ کا وجود کسی درخت کے سایے کی مانند ہوتا ہے — خاموش، مگر سب کو آسرا دینے والا۔
جب باپ نہیں رہتا، تو گھر کے ستون ہلنے لگتے ہیں۔ گھر وہی ہوتا ہے، کمرے وہی، در و دیوار وہی، مگر ایک خالی پن ہر گوشے میں سرایت کر جاتا ہے۔
ماں، جو کل تک شوہر کے ساتھ جی رہی تھی، اب تنہا ہے۔
بیٹے، جو باپ کی آنکھ کے اشارے سے سمجھے جاتے تھے، اب آزاد ہیں — مگر اس آزادی میں ذمہ داری کا وزن نہیں، صرف خودغرضی ہے۔
چھوٹے بچے، جن کی تعلیم ادھوری ہے، جن کی شادیاں باقی ہیں، وہ زندگی کی دہلیز پر کھڑے ہیں، مگر دروازہ بند ہے۔
باپ کی غیرموجودگی میں نہ مشورہ ہے، نہ فیصلہ۔ صرف خاموشی ہے۔ اور یہ خاموشی، ماں کے چہرے پر جھریوں کی صورت لکھی جا رہی ہے۔
باپ کے جانے کے بعد بیٹے اپنے گھروں میں مگن ہو جاتے ہیں۔
ہر ایک اپنی بیوی، بچوں اور ملازمت کی فکر میں ایسا مصروف ہوتا ہے کہ ماں ایک “سائڈ کریکٹر” بن جاتی ہے۔
ماں اگر کہتی ہے کہ دوا ختم ہو گئی، تو بیٹا جواب دیتا ہے:
“امی، میں ابھی آفس میں ہوں، شام کو بھیج دوں گا۔”
ماں کے دل میں یہ بات کانٹے کی طرح چبھتی ہے، مگر وہ چپ رہتی ہے۔
بیوی اگر نخرہ کرے، تو بیٹا فوراً نرمی اختیار کرتا ہے۔
لیکن ماں کے آنسو، صرف تکیے میں جذب ہو جاتے ہیں۔
بیٹوں کو لگتا ہے ہر مہینے کچھ پیسے بھیج دینا، ماں کا حق ادا کرنا ہے۔
لیکن جو ماں نے جوانی میں اپنا آپ لٹا کر اولاد کو سنوارا،
کیا وہ چند ہزار روپوں سے مطمئن ہو جائے گی؟
گھر میں جوان ہوتی بیٹیاں، جب باپ نہیں ہوتا، تو عزت، عزائم، اور ارادے سب مشکوک ہو جاتے ہیں۔
رشتے والے سوال کرتے ہیں:
“باپ نہیں ہے؟ تو کون کرے گا شادی کی تیاری؟”
ماں ایک طرف سے بیٹوں کے لیے پریشان، دوسری طرف بیٹیوں کی فکر میں گھلتی رہتی ہے۔
رشتے آتے ہیں، دیکھ کر چلے جاتے ہیں۔
کبھی کہہ دیتے ہیں “گھر کا ماحول ٹھیک نہیں”,
بہنوں کا خواب — پڑھائی مکمل کرنا، نوکری کرنا، اچھا جیون ساتھی —
سب ادھورا رہ جاتا ہے۔
کیونکہ اس گھر میں جو بڑا تھا، وہ اب قبر میں سو رہا ہے — اور باقی لوگ صرف اپنی نیند پوری کر رہے ہیں۔
چھوٹے بھائی جو ابھی تعلیمی دور میں ہیں، جنہیں باپ کے سائے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے،
وہ اسکول سے آتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، اور خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔
نہ کوئی اُن سے پوچھتا ہے کہ *”بیٹا آج کیا پڑھا؟”,
نہ کوئی کہتا ہے “کل تمہارا امتحان ہے، میں مدد کرتا ہوں”
گھر میں سب اپنی دنیا میں مگن ہیں۔
ماں تھکی ہوئی، بہن پریشان، اور بڑے بھائی شہر جا چکے ہیں۔
ان بچوں کا مستقبل کتابوں سے نہیں، بلکہ اکیلے پن سے لکھا جا رہا ہے۔
اور پھر لوگ کہتے ہیں:
“یہ بچے بگڑ کیوں جاتے ہیں؟”
بیٹا شہر چلا گیا۔ ماں کو اُسی گاؤں کے گھر میں چھوڑ کر۔
ماں کے پاس اب صرف ایک فون ہے، جو کبھی کبھار بجتا ہے۔
اور بیٹے کا لہجہ ہمیشہ مصروف:
“امی، کام بہت ہے، کل بات کرتا ہوں”
ماں ہر روز اس فون کی گھنٹی کا انتظار کرتی ہے،
ہر مہینے وہ دس ہزار کا میسج دیکھ کر خود کو تسلی دیتی ہے۔
مگر دل کے کمرے میں سناٹا ہے۔
شہر والا بیٹا سمجھتا ہے کہ ماں کی خدمت وہ کر رہا ہے،
لیکن ماں کی اصل طلب ہے ساتھ، باتیں، توجہ — جو صرف زندہ رہنے کی علامت ہوتی ہے۔
اب ماں کے چہرے پر وقت کی ساری تھکن واضح ہے۔
جس نے اپنی پوری زندگی شوہر اور بچوں کے لیے وقف کی،
اب وہ اکیلے کمرے میں مصلے پر بیٹھ کر رب سے ہمکلام رہتی ہے۔
اس کے پاس دنیا کے لیے کچھ شکایتیں ہیں،
مگر زبان پر شکر ہی ہے۔
بیٹوں کو، بہنوں کو، رشتہ داروں کو، سب کو دعا دیتی ہے۔
مگر دل میں بس ایک بات گونجتی ہے:
“کاش، میرا شوہر زندہ ہوتا…”
بیٹے بڑے ہو چکے تھے۔
اب وہ اپنے اپنے شہروں میں، اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں میں مگن تھے۔
ہر ایک کا الگ گھر تھا، الگ دنیا، الگ مصروفیت۔
اور ماں؟ وہ اب بھی اُسی کمرے میں تھی، جہاں اس نے اپنے بچوں کو جھولا جھلایا تھا،
اور اپنے شوہر کے ساتھ سادہ مگر پرسکون زندگی گزاری تھی۔
کبھی کوئی بیٹا دو مہینے بعد آتا، تو صرف دو دن کے لیے۔
بس اتنا کہ “ماں کو منہ دکھا آئیں”.
پھر واپسی سے پہلے تھوڑی دیر بیٹھنا، چند رسمی باتیں،
اور یہ جملہ:
“امی، آپ کا بہت دل کرتا ہے، میں تو بس آپ کے لیے ہی آیا تھا۔”
مگر ماں جانتی ہے — وہ سچ نہیں ہے۔
اب وہ گھر، جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی،
جہاں ہر روز رات کو شوہر کی آواز سنائی دیتی تھی:
“بچوں کو سلا دیا؟”
اب وہ گھر صرف ایک اذان پر جاگتا ہے، اور پھر خاموش ہو جاتا ہے۔
ماں، جس نے اپنی جوانی بچوں کے لیے، اور عمر شوہر کے لیے وقف کر دی،
اب فجر کے وقت ایک مصلے پر بیٹھی رہتی ہے —
خاموش، پرسکون، اور ٹوٹی ہوئی۔
اُس کے پاس اب نہ کسی سے گِلہ ہے، نہ شکوہ۔
بس ایک سوال ہے جو دل سے اٹھتا ہے اور آسمان کی طرف جاتا ہے:
“یا اللہ… کیا ماں کا مقام اتنا چھوٹا ہوتا ہے؟”
“کیا بچے صرف اپنے بچوں کے ہو جاتے ہیں؟”
وہ دن بھی آیا،
جب گھر کے اُس کمرے سے خوشبو کے بجائے خاموشی نکلی۔
جب وہ ماں، جو ہمیشہ دروازے کے پیچھے بیٹھ کر بچوں کی واپسی کا انتظار کرتی تھی،
اب خود بند دروازے کے پیچھے لیٹی تھی — بےآواز، بےحرکت۔
کسی بیٹے کو فون پر خبر ملی:
“امی اب نہیں رہیں”
کسی نے آفس سے چھٹی لی، کسی نے فلائٹ بدلی،
اور سب ایک ایک کر کے پہنچنے لگے —
اُسی ماں کے پاس جس کے لیے زندگی بھر وقت نہ نکال سکے۔
گاؤں کا وہی پرانا کمرہ،
جہاں ماں کی آواز کبھی گونجتی تھی،
اب بس لوگوں کی آہ و زاری سے بھر گیا۔
بیٹے، جنہیں دو دو دن رکنے کی بھی فرصت نہ تھی،
اب ماں کے جنازے پر پانچ پانچ دن رکے،
اور ہر آنے والے سے کہنے لگے:
“ہماری ماں بہت نیک تھی، ہم تو بس ان کے لیے ہی جیتے تھے۔”
ماں کے جانے کے بعد گھر میں سب کچھ ویسا ہی تھا —
وہی چارپائی، وہی پرانا صندوق، وہی جھومر جس کی لَو ماں ہر جمعرات کو صاف کیا کرتی تھی۔
بس فرق یہ تھا… اب ان سب چیزوں کی روشنی میں ایک سناٹا بس گیا تھا۔
بیٹے اب بار بار اُس کمرے میں آتے،
جہاں ماں کی خوشبو تھی —
اب جو صرف ایک دھیمی سی مہک میں ڈھل چکی تھی۔
دیوار پر ایک گھڑی لگی تھی، جو ماں کے جانے کے بعد رک گئی تھی۔
ایسا لگتا تھا جیسے وقت نے بھی ماں کے ساتھ ساتھ رکنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔
بیٹے اب سوچتے تھے کہ
“کاش جب ماں نے دوپہر میں فون کیا تھا، ہم مصروف نہ ہوتے۔”
“کاش جب ماں نے کہا تھا کہ ‘تم آ جاؤ، مجھے دکھ ہو رہا ہے’ — ہم چلے آتے۔”
“کاش اُس نے جو پیسے نہیں مانگے، ہم بنا مانگے ہی بھیج دیتے۔”
“کاش ایک دن اُس کے پاس بیٹھ کر اُس کی خاموشی کو سن لیتے…”
لیکن “کاش” کبھی وقت نہیں لوٹاتا۔
چھوٹے بچوں کو اب سمجھ آیا کہ جس ہستی کو وہ “پرانا” سمجھ کر نظرانداز کرتے تھے،
وہی سب سے قیمتی تھی۔
بہنوں نے اپنی شادی کی تصویروں میں ماں کے جھکے چہرے کو تلاش کیا۔
اور بھائی اب اُن مسجدوں میں جا کر دُعائیں کرتے تھے
جہاں ماں نے اُن کے لیے عمر بھر سجدے کیے تھے۔
ماں کے بعد وہ گھر اب رہائش تھی — گھر نہیں۔
رشتے اب صرف میسج اور کال تک محدود ہو گئے۔
کبھی کبھی کوئی بیٹا آتا، تھوڑی دیر بیٹھتا،
پھر اٹھ کر کہتا:
“امی کے بغیر یہ گھر گھر سا نہیں لگتا…”
لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ
جب وہ زندہ تھی — تب بھی کیا کبھی اُسے گھر جیسا لگنے دیا گیا تھا؟
اب وہ گھر بھی کھوکھلا سا لگنے لگا ہے،
جہاں کبھی قہقہوں کی گونج ہوا کرتی تھی۔
ماں کے جانے کے بعد، نہ کوئی بات بچی ہے،
نہ کوئی دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی گفتگو۔
جو بھائی اپنی شادی کے بندھن میں بندھ چکے ہیں،
وہ اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔
اپنی بیویوں، بچوں اور گھروں کے ذمہ دار ہیں۔
وہ سنبھل جائیں گے، یہ ان کا فطری راستہ ہے۔
مگر جو بچے، جن کی شادی نہیں ہوئی،
جن کی پڑھائی ابھی ادھوری ہے،
جنہیں ابھی تک کوئی سہارا دینے والا نہیں ملا،
وہ اس ویرانے میں تنہا کھڑے ہیں۔
بڑے بھائی جو کبھی سہارا بنے تھے،
اب اپنی نئی زندگیوں میں اتنے مصروف ہیں
کہ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پریشانیوں کو سمجھ بھی نہیں پاتے۔
وہ بچے جو والد کے بغیر پرورش پا رہے ہیں،
ان کے لیے ایک گھر کی چھت بھی سہارا نہیں رہتی۔
نہ کوئی ہمدردی، نہ کوئی رہنمائی،
بس تنہا راستے اور ادھورا سفر۔
گھر کے وہ کونے جہاں کبھی ماں کے ہاتھ کا کھانا رکھا جاتا تھا،
اب ویران ہیں۔
وہ خواب جو کبھی آنکھوں میں سجائے گئے تھے،
آج ٹوٹے ہوئے ہیں۔
یہ بچے، جو ابھی تک زندگی کی لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں،
اب خود ایک بھاری بوجھ بن چکے ہیں۔
ان کے دلوں میں خوف، اداسی اور بے بسی گھل چکی ہے۔
یہ گھر، جو کبھی زندگی کا مرکز تھا،
اب صرف ایک یادگار بن چکا ہے۔
جس میں صرف خاموشی، اداسی اور ٹوٹے ہوئے خواب رہ گئے ہیں۔
انجینئر ذیشان ✍